Physical Address

304 North Cardinal St.
Dorchester Center, MA 02124

al waqiya

حضورﷺ اور ایک بوڑھی عورت کا al waqiya 2024

دنیا کا بہت بڑا عالم تھا مطمئن کردے اسان ہو عالم فاضل پڑھے لکھے بندے کو کسی بندے کا مطمئن کرنا    متاثر کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے اپ فرماتے ہیں میں نبی کریم علیہ السلام کی بارگاہ میں پہلے دن گیا میں مناظرے کی ارا حضور اٹھ نہیں پر تشریف فرما تھے۔  حدیث میں al  waqiya  کی اہمیت۔

اور یارو محنت کر کے جو میک اپ کر کے چہرہ بنایا جاتا ہے اس کے اندر غسل تو کئی دفعہ ہوتا ہے پر جاذبیت نہیں ہوتی لیکن جس بابے نے کبھی میک اپ نہ کیا ہو لیکن وضو ذرا طریقے سے کرے روزتو رنگ گورا نہ بھی ہو تو لوگ کئی دفعہ یہ نہیں کہتے رنگ گورا ہے بلکہ لوگ کہتے ہیں ۔

ایک بوڑھی عورت کا  al  Waqiya  

چہرہ نورانی ہے اب میں اس پر اس پر ہم کر سکوں اور نورانی چنے گورے ہوتے ہیں پر نورانی نہیں ہوتے کچھ گورے نہیں ہوتے پر نورانی بڑے ہوتے یا نہ کوئی روان ہے تو حضرت عبداللہ ابن السلام رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے۔

جب میں گیا تو حضور اونٹنی پر تشریف فرما تھے کہتے ہیں سادہ وضو اور میں دیکھ رہا تھا کہ داڑھی مبارک میں کنگی بھی نہیں ہوئی سرکار نے سر پہ سادہ سا امامہ باندھا تھا حضور اونٹنی پر بیٹھے تھے۔

اور جس اونٹنی پر تشریف فرما تھے اس پہ کجاوا بھی کوئی نہیں تھا لیکن کہتے ہیں دو جملے حضور کی زبان سے نکلے دو جملے اور میں ان جملوں کا قیدی ہو گیا میرے محبوب نے فرمایا جو چاہتا ہے۔

کہ اس کی عمر بھی زیادہ ہو رزق میں بھی برکت ہو اپ بھی چاہتے ہیں نا عمر بھی زیادہ ہو رزق میں بھی برکت ہو تو حضور فرمانے لگے اس کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ اگر وہ چاہتا ہے ۔

عمر زیادہ ہو اور رزق میں برکت ہوتو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے یہ حدیث اگرچہ اپنے انہی الفاظ کے ساتھ مشکات میں موجود ہے لیکن وہاں حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں۔

کہ وہ کیا مٹھاس تھی لفظوں میں جملے تھوڑے تھے بعد میں گہرائی بہت زیادہ تھی میں ایا تھا بحث کرتے اور میں اگے بڑھا حضور کا دست مبارک تھاما اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ مجھے کلمہ پڑھا دے میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں ہمارے ہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ بہت زیادہ فلسفہ بیان کرنے والا شاید کوئی بڑا پڑھا لکھا بندہ ہوتا ہے۔

al waqiya
al waqiya

یہ جی نفسیات کا بڑا ماہر ہے جی اس نے کئی ماسٹر کیے ہوئے ہیں ایم فل کی ہے پی ایچ ڈی لو خدا کے بندے نفسیات کا ماہر وہ ہوتا ہے جو سامنے والے کی عقل کے مطابق بات کرنا جانتا ہے اور اگر تو کہے کہ میری بات ہی بڑی مشکل ہے میں کس کو سمجھاؤںتو اپ یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اپ ابھی سمجھدار نہیں ہوئے کلیم الناس اگر اپ پڑھے لکھے ہوتے تو لوگ اپ کی بات سمجھتے۔

Islami  waqiya  حدیث کی روح سے۔

میرے رسول کریم نے کبھی کوئی مشکل بات نہیں کی کبھی کوئی فلسفہ نہیں بیان کیا بلکہ تیری نگاہ ناز سے دونوں ہی مراد پاک ہے سبحان اللہ عقل غیاب جستجو عشق حضور و اس طرح اقبال کہتے ہیں اگر بڑا عقلمند ادمی ہوتا تھا تو حضور کی بات اس کے دل کو بھی اچھی لگتی۔

اور اگر کوئی عشق کو مچھلی والا اتا تھا نا کہ میں نے مست ہو کے انا ہے تو وہ بھی میرے نبی کی باتوں سے مست ہو جایا کرتا تھا دونوں تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاس تو حضور کو بات کرنے کا سلیقہ بھی بڑا شاندار اتا تھا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بات کرتے تھے۔

اپنی دھیمی کرتے تھے اتنی دھیرے میں کرتے تھے میں تو چھوٹا ادمی ہوں کسی بڑے بندے کو نصیحت بھی نہیں کر سکتا ورنہ میں علماء سے تو نہیں لیکن جو طالب علم ہیں اور میرے پاس ائے ہوئے ہیں مدرسے کے میں ان سے ایک تو اپ کی جو سات کی ہوگی اصل ہوگی مما سادھی سے نکلے پہلے ہماری شادیوں پہ در دھلن جاتے تھے بیوٹی پارلر اب سارا خاندان جا کے اس پہ غسل نہیں ہوتا اپ کو جو رب کریم نے بنایا ہے اس سے زیادہ شاندار اپ کو کوئی بنا سکتا ہے۔

اللہ فرماتا ہے جو میں نے تیرا چہرہ بنایا ہے نا یہ میری چاہت ہے میں نے جیسا چاہا ہے تجھے بنایا ہے تو مجھے تجھے وہ چہرہ پسند کیوں نہیں جو میرے رب نے بنایا ہے یہ چاہت ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر برابر کیااور جس صورت میں اس نے چاہا تجھے ترتیب دی تو پہلی بات وہ دوسری بات گفتگو کریں تو ذرا ذرا تھوڑا سا موقع دے گی۔

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپ بیٹھے ہوتے ہیں کوئی بولیں گے اپ نہیں بول سکتے اب وہی بات کر گفتگو کریں معنی خیز کریں اتنی باتیں نہ کریں کہ پھر اپ رہ جائیں کم بات کریں اور جتنی کریں وہ وزنی کریں۔

تاکہ اپ کی بات کا ایک خاص اجم ہو ایک وقار اللہ کے محبوب بات کرتے تو اس بات کے اندر وزن ہوتا وقار ہوتا ہے ہمارے عصر رحمت اللہ علیہ ہمیں اکثر حکم دیتے تھے تقریر تھوڑی کم شعر پڑھنا میں نے فرمانے لگے بات کو بے مقدم کر دیں اور تم جب رنگ اس طرحبات ختم کریں ایک حدیث پاک حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالی عنہ ایک صحابی ہیں میں بتایا میرا واحد اپ کو ملے گی وہ کہتا ہے۔

میرا اپنی بیوی سے اختلاف ہو گیا بی بی سے بندہ راضی ہوتا ہے تو بڑا ہی راضیہوتا ہے پھر وہ کہتا ہے کہ جیسی میری ہے ویسے کسی کی بھی نہیں اور جب ہوتا ہے نا ناراض تو پھر وہ منگنی سے کھانی شروع کرتا ہےکہ جب میری منگنی ہوئی تھی تو تیرے چاچے نے مجھے گورا تھااور پھر وہ دن جب رکھے تھے۔

اس دن جو کام ہوا تھا اس کا بھی اب اختلاف بھی ہو گیا اور جب اپ کسی سے ناراض ہوتے ہیں پھر اس کی خامیاں ساری سامنے ا جاتی ہیں پھر وہ کہتا ہے شادی والے دن تو میں نے صحیح سلوک نہیں کیا لیکن مجھے کپڑے دیے تجھے کوئی پہننے والے تو نہیں نا تو میری اماں اب اختلاف ہو گیا اب ہم کیا کرتے ہیں جو قریب والے لوگ ہوتے ہیں۔

وہ اس پر تھوڑا تیل اور ڈالتے ہیںوہ کہتے ہیں نہیں نہیں تینوں تجھے پتہ ہی نہیں ہے جتنے دن بڑیاں گلاں دا پتہ ہی نہیں تو وہ بے شادی تو 15 دن بعد سعودی عرب ٹر گیا ساڈے کول سون گاڑیاں ہم تمہیں بتاتے ہیں تاکہ تباہی اور اترے اس طرح نہ کریں اپ ایک ادھ بات کہہ کے چلے جاتے ہیں۔

ان بیچاروں نے اکٹھے رہنا ہوتا ہے ان کی زندگی دوزخ کو نہیں رہتی ہے ان کو قریب کریں اللہ کے رسول تو کسی کا نکاح کرتے تھے تو میاں بیوی کے درمیان محبت کی دعا فرماتے تھے تو صحابی ائے تو اپنی بیوی سے ناراض تھے تو انہوں نے اب بات شروع کر دی کہنے لگے۔

یہ بھی کر دیا یہ بھی کرتی ہے یہ بھی کرتی ہے یہ بھی غلطی ہے یہ بھی غلطی ہے یہ بھی کوتاہی ہے بڑی باتیں سنائیٹیک لگا لی کئی لوگ کہتے ہیں نا جی ڈاکٹر نے میری بات تو پوری سنی کوئی نہیں تو جب تک پوری سنی نہ جائے بعض بندوں کو تسلی نہیں ہو پورا وقت دیا وہ کہتے ہیں جتنا میرے اندر غبار تھا سارا میں نے نکالا اور میں نے ثابت کر دیا کہ میری بیوی میں یہ بھی کمزوری ہے یہ بھی کمزوری ہے یہ بھی کمزوری ہے کہتے ہیں۔

جب میں تھک گیا نا باتیں کر کر کے باتیں ختم ہو گئی تو حضور ہلکا سا مسکرائے سبحان اللہ ا پھر پہلی نظریں لوٹ لے ماہی تیرے ہار چنگارا اتنے حضور ہلکا سا مسکرائے زیر لب اور فرمانے لگے کہ میری بات ختم ہو گئی ہے تو ایک میں بھی کر لوں تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرمانے لگے ایک بات کا جواب دے صرف ایک تیرے اگے ہیں یوں دبے لچے حسن و جمال دیا تھا وہ بے مثل تھا گفتگو کا جو ڈھاب اور سریقہ دیا تھا۔

وہ بے مثل اور بے مثال تھا اور پھر جو حضور کی ادائیں تھی نا کان حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں میرے محبوب کے اخلاق دیکھنے ہو تو.

قران پڑھو جن اخلاق کا قران درس دیتا ہے وہ عملی طور پر سارے مدینے والے محبوب میں پائے جاتے تھےجو سب سے بہترین عادت تھی.

نا بہترین ترین عادت وہ اللہ نے میرے رسول کریم کو عطا فرمائے ہمارا نام ایک مزاج بن گیا ہےہمارے پاس لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ جی مسواک سنت ہے.

اب تو سائنس بھی مان لی ہےکہ مسواک کریں گے تو اپ کے وجود کے اندر جو منہ میں فالتو مادے ہوں گے جراثیم وہ مر جائیں گے اب سائنس کو مان بھی ہے مجھے کبھی کبھی اس لفظ سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔

میں کہتا ہوں کہ سائنس اگر نہ مانے تو ہمیں بھی اس پہ فرق پڑتا ہے نہ مانے سائیں سےسائنس کو منوانا ہماری ڈیوٹی اس طرح کا دین نہ بناؤ کہ معاذ اللہ دین کو سائنس کا غلام کر دو سائنس کل بھی رسول اللہ کے غلام تھی اج بھی میرے نبی پاک کے غلام تو حضور کی جتنی ادائیں ہیں جتنی ایک کدو شریف ہےحضور نے کدو استعمال کرنااپ چلے جائیں کسی بھی جگہ پہ جس بندے کو بہت زیادہ بلڈ پریشر کا مسئلہ ہونا تھا۔

اب اس کو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ملے تو اس کو استعمال کرا دو جزاویت درج اختیار کر دے اور اندر کا نظام سارا دھرم ورم ہو جائے تو اس کو گدو استعمال کراؤ اور اپ اس کی خاصیت دیکھ لیں تمام صفیوں میں سے تحقیق بھی سب سے زیادہ اسی پہ ہوتی ہیں۔

میرے رسول پاک کا ایک طریقہ مبارک ہے اور صحابہ کے اگرچہ سید الطعام گوشت ہے کانوں کا سردار اسے کہا گیا لیکن حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں درزیل نبی پاک کی دعوت پکائی کی وہ درزیدہ کپڑے سیتا تھا اپ فرماتے ہیں ۔

کہ میں حضور کے ساتھ اس دردی کے گھر گیا تو گوشت اور کدو پکا ہوا تھافرماتے ہیں اگرچہ سردار گوشت دی ہے اور نبی کریم نے نا گوشت کے ٹکڑے ہٹا ہٹا کے نا تو اندر سے کدو نکال نکال کے کھایاحضرت انس بن مالک کہتے ہیں مجھے کدو پسند نہیں تو میں نے کبھی نہیں کھایا تھا۔

گھر میں ہوتا تو میں جھگڑا کرتا پر اج حضور کی رغبت دیکھی نہ تو کل نہیں پسند تھا پر ابھی ابھی مجھے کدو بڑا پسند ہو گیا مجھے کدو شریف سے پیار ہو جو اعلی ترین چیزیں تھی وہ نبی پاک نے استعمال فرمائی اعلی ترینزیتون کی افادیت کبھی کم ہوئی ہے 1400 سالوں میں ابھی کسی نے کہا ہو کہ زیتون استعمال نہ کرو کبھی اس کی افادیت میں کیا امامہ میرے نبی پاک کی سنت ہے سارے پڑھیے صلی اللہ حضور کی سنت ہے۔

نا یہ کبھی کوئی بندہ ایسا اپ کو ملا کہ اس نے ماما باندھا ہو تو کسی نے کہا ہو رہن دیار تینوں سونا نہیں لگے میری بات کی سمجھ ا رہی ہے لیکن امامہ کبھی بھی اپ کو ملے گا ہی نہیں اس بندے کے مزاج کے ساتھ یہ فٹ یا اس کے چہرے کے ساتھ یہ فٹ عینک اپ لے لیں بازار سے چھوٹی بھی ملتی ہے۔

بڑی بھی ملتی ہے کچھ لوگوں کے چہرے پہ کچھ چیزیں نہیں سٹ نہیں ہوتی لیکن یہ سرکار کی چونکہ سنت ہے اور اس کا اعزاز یہ ہے کہ نبی پاک نے فرمایا جمعہ والے دن امامہ باندھ کے ایا کروجمعے والے دن امامہ باندھ کے ایا کرو جو لوگ جمعے والے دن امامہ باندھ کے اتے ہیں۔

اللہ کے فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیںلیکن امامہ شریف ہونا چاہیے اپنی مرضی کا رومال نہ باندھنا کم از کم ساڑھے تین کا ٹوپی کے اوپر باندھا گیا ہو اپنی مرضی کا طریقہ نہیں اختیار کریں ۔

وہ جو شریعت نے حدود بیان کی ہیں اس کے مطابق چلیں میری بات کی سمجھ ا رہی ہے تو جو بات میں نے چھیڑی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے محبوب رب کریم کی دلیل ہے جتنا کائنات کے اندر حسن کوئی بندہ تلاش کرنا چاہے گا وہ مجبور ہو جائے گا اور اسے دروازہ رسول پہ جانا ہی پڑے گابڑے بڑے لوگ روکدارتے ہیں بیچارے بڑا کچھ کرتے ہیں۔

لیکن اپ کو لوگ سونا کہیں گے نورانی نہیں کہیں گے مجھے بڑی کر لیں داڑھی روز بنائیں بے شک لیکن فطرت داڑھی ہے حسین ناراض ہو گیا اور داڑھی بڑی سمجھدار ہے کبھی عورت کے منہ پہ نہیں اتی اتی مرد کے بھوک گئےمرد کے منہ میں داڑھی جاتی ہے چلیں میں کوئی بات نہیں کرتا ورنہ میں تو حنفی ہوں میرے امام صاحب اس بندے کی گواہی قبول نہیں کرتے جس نے داڑھی کر دی وہ کہتے ہیں۔

اس کی شہادت کچہری میں قافلے قبول نہیں ہے وہ تو قبول نہیں کرتے اس کی شہادت کو بھی اب چلیں عوام سے ڈرتے ڈرتے کئی دفعہ کچھ باتیں نہیں بتائی جاتی بربادیں ہیں۔

تو صحیح ناایک بندے نے داڑھی منڈائی تھی تو جناب عمر نے مدینے سے بھی نکال دیا تھا ان سانو کانے کوئی کہہ گیا کہ چنگی طرح نیک ہوے گا روٹی ادھر چنگی طرح نیک ہو جائے گا اس سے پہلے کیوں کھاتے ہو یہ قسم اٹھاؤ کہ پیسے اس دن پکڑنے ہاتھ مجھے دے چنگی طرح نیک ہونا ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں میں اندر سے ٹھیک نہیں تو اندر سے ٹھیک ہونا تھا جو ڈیوٹی نہیںچہرہ دیکھا تو حیران ہو گیا یہ تو نقلیں اتارنے والا ہےتو نقلیں اتارنے والا ہے۔

پر اللہ کے نبی رب کریم کے حکم کے اگے لیت اللہ نہیں کرتے یہ نہیں کہتے کہ میری عقل میں نہیں ارہا اٹھایا غسل دیا کفن دیا تدفین کر دی اس کو جب دفن ہو گیا حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پہ حاضر خدمت ہوئے اور بارگاہ عالی مرتبہ میں عرض کرنے کے مالک تو بے نیاز ہے۔

چارہ سوال تو نہیں پر اپنی تسلی کے لیے مالک یہ فرمائیے کہ وہ تو نقلیں اتارتا تھا تو رب کریم نے فرمایا موسی بات یہی ہے پر میں نے اس سے نا مرتے وقت ایمان نصیب کرےلی وہ اپ کا کلمہ پڑھ کے دنیا سے گیا ہے اور توبہ کر کے گیا ہے تو مالک اتنی کرم نوازی کیوں ہوئی تو رب کریم نے فرمایا۔

موسی جب وہ تیری طرح بن سنور کے نکلتا تھا نا تیری ادائیں اپناتا تھا تو مجھے پیارا ہی بڑا لگتا تھا پیارا لگتا تھا یارو دیکھو نا ترمذی شریف میں حدیث ہے میرے رسول پاک علیہ السلام نے فرمایا میرا امتی جب سفید داڑھی لے کے قبر میں جائے گا ناداڑھی اور وہ بھی سفید تو رب فرشتوں سے فرمائے گا اسی عذاب نہ دینا یہ میرے محبوب کی سنت سفید داڑھی لے کے ا گئے مجھے شرم اتی ہے اسے عذاب دیتے ابواب کو سمجھے۔

کہ یہ حضور کی سنت کا اعزاز جو اللہ کی بارگاہ میں رب کے حضور جو سنت کا اعزاز اس لیے کہ کائنات میں سب سے اعلی ترینجو کام تھا وہ کیا ہی میرے مصطفی کریم نے اعلی ترین اور طریقہ مبارکہ میں حسن اور جاذبیت اور اپ اندازہ کر لیںہم لوگ پٹری سے اتر جاتے ہیں مرضی کرتے ہیںہمارا مزاج ہے۔

اتنا مسجد کو کہے کہ الکوحل والی خوشبو استعمال نہ کرے اور ہم کوئی نہ کوئی دلیل نکال کے لے ہی اتے ہیں لیکن خوشبو اس دور میں بھی اتنی بکتی ہے جس کے ہاتھمیں اور لوگ اپنی اپنی ضرورت کے لیے اس کو استعمال ہیں ان 1400 سالوں میں ساڑھےچ سو سالوں میں ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ کاروبار کہیں ٹھنڈا ہوا ہو حرم شریف اللہ اپ کو لے جائے تو مسجد نبوی میں سونے کی دکان کے ساتھ خوشبو والی دکان ہوتی ہے۔

یعنی اتنا مہنگا کاروبار ہے کہ جتنا کرایہ سونے کی دکان والا دے رہا ہے اتنا ہی خوشبو کی دکان والا دے رہا ہے اتنا مہنگا یہ کاروبار ہے ایک دن بھی اس کام کی اہمیت کمنہیں ہوئی اور رسول کریم نے کیا فرمایا صحابہ کہتے ہیں تین چیزوں سے کبھی منع نہیں کرتے تھے کوئی دکیہ دیتا تھا تو قبول کرتے تھے۔

کوئی بندہ اگر حضور کو دودھ پیش کرتا تھا تو نبی پاک قبول کرتے تھے اور اگر کوئی شخص حضور کو خوشبو دیتا نا تو حضور جلدی قبول فرماتے مزاج تو جو اعلی ترین چیزیں تھیں ان کو میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہمیں کر کے دکھایا ہمارا ظاہری حلیہ اج بھی اہل عرب لمبا کرتا پہنتے ہیں ۔

اپ لمبا کرتا پہنتے ہیں حیا کے زیادہ قریب ہے کھلا لباس حضور پسند کرتے تھے یہ شرم و حیا کے زیادہ قریب اس کے اندر انسان کا پردہ زیادہ ہے وہ ساری اعلی قسم کی صفاتجن سے ایک ادمی متصف ہو سکتا ہے اور اپنے اپ کو سجا سکتا اپنے معاملات کو ٹھیک کر سکتا ہے۔

وہ ساری رسول پاک نے ہمیں عطا فرمائی ایک حضور کا طریقہ مبارکہ تھا کہ سامنے والے جتنے لوگ حضور کے دائیں بائیں رہتے ہیں تو ان کا خیال کرتے تھے ہم تو خیال رکھواتے ہیں۔

نا اپنا کہ سارے مل کے میرا عزت ہی نہیں کرتا تو میری تو میں کہتا ہوں کہ یہ تو یہاں اپنے عزت کی بھیک مانگی ہے یا اپ نے لڑائی کر کے عزت دی ہے ایسا نہ کریں اپ عزت دینی شروع کر دیں۔

اللہ اپ کو سکون عطا کر دے اپ احساس کریں دوسروں کا حضور نہ شدت کے ساتھ یہ اعلی سنت ہے میرے نبی پاک کی صلی اللہ سارے پڑھیے درود شریف صلی اللہ سنت اپ دیکھیں نا بخاری مسلم میں موجود ہے۔

حضور فرماتے ہیں میرا دل چاہتا ہے میں لمبی نماز پڑھاؤںمیں مختصر پڑھاتا ہوں اور مسند امام احمد بن حنبل میں حدیث کے لفظ ہیں کہ اگر کوئی نبی پاک کا انتظار کر رہا ہوتا تھا۔

تو نماز مختصر پڑھتے تھےاور اس کو فارغ کر کے بھی لمبی نماز پڑھتے ہیں ایسا نہیں کہ اب ائے ہیں چار پانچ لوگ تو ان کو پتہ چل جائے کہ حضرت جی بڑی تگڑی نماز پڑھتے ہیں۔

بڑے سووی صافی ادمی یہ نہیں بلکہ نماز بلکہ مسند امام احمد بن حنبل میں تو وہ خوبصورت حدیث موجود ہےسیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عصر کی نماز کے لیے اقامت پڑھ دی تھی حضور م*** امامت پر تشریف لے گئے ایک یہودی کا غلام ایا اور اس نے ا کے عرض کی یا رسول اللہ میں بڑی مشکل میں ہوں۔

اگر اپ چلیں تو میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے میرا مسئلہ حل ہو جائے گا تو حضور کے احساس کی شدت کا یہ حال تھا کہ نبی کریم نے نمازیوں سے فرمایا تم بیٹھ جاؤ میں پہلے اس کا کام کر کے اتا ہوں سبحان اللہ جب راضی ہو اس کا بھی پتہ چل جائےیہ یہ ہمارا یہ مزاج نہیں ہوتا گھر کے اندر بھی گھر کے اندر بھی نواب صاحب ہی ہوتی ہے۔

یعنی گھر جا کے کہانیاں سناتے ہیں کہتے ہیں تو پتہ ہے میں کڈا او کھاوا کمائی کی مشکل ہے پیچھے پیچھے ہٹ جاؤ سارے میں فتح کر کے ابھی سر کر کے ایا ہوںایک بچہ پانی لے کھڑا ہو جائے دوسرا دودھ کا گلاس لائیں بیگم صاحبہ فٹا فٹ ایسے نہیں کریں میرے رسول پاک علیہ السلام کی پیاری زوجہ کہتے ہیں حضور کھا رہا ہے۔

کھانا مانگا میں نے اس کے حضور میرے سر میں درد ہے تو پڑھو نہیں بنی اسحاق کو محبوب فرمانے لگے لا میں تجھے اٹا کون دیتا ہوں تو مجھے روٹی پکار سبحان اللہ یہ بھی سنت ہے نبی پاک کو ان چپ کر گئے ہویہ بھی حضور کی سنت ہے یہ بھی سرکار کا طریقہ ہے کبھی کبھی گھر میں جھاڑو دینا یہ بھی نبی پاک کاحضور کام میں ایک ادھ بٹھاتے تھے نا جو اج کا یہ والی سنت کس دن ادا کردی ایک دن میں نے تمہیں میں یہ بات کی تو ایک بچہ مجھے کہنے لگا۔

حضرت صاحب نے سنت ادا تے کر لے سمجھا نہیں جی مسجدتو میں نے چائے کا کپ بنا دیا علامہ بیچاری مجھے روز بنا کے دیتی ہے میں نے بنا دیا تے ابا جی گنے پتر اڑائے دی انت خراب کر لیتو اب اپ تو سنت کچھ اور بیان کر رہے ہیں میں کہا تسیں شروع کرو نا تاکہ تہاڈے بچے سوال کر علاج تسی کر رہے ہو۔

تو اس میں بھی کوئی حکمت ہوگی بزرگ کو بات کرتے ہیں تو وہ بھی کوئی اتنی بری نہیں ہوتی اس کے اندر بھی کوئی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے لیکن اپنے گھروں کے ماحول میں خوبصورتی لائیں یہ یہ سٹیٹس نہیں اہل اسلام کا بات سلیٹنے کی طرف ا رہا ہوںحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں حضور فرمانے لگے کہ جب تم راضی ہوتی ہو تب بھی مجھے پتہ چل جاتا ہے۔

اور جب ناراض ہوتی ہو تب بھی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کس طرح انکھیں میں نے کھول لی حضور کس طرح تو دیکھو نبی پاک سامنے والے کے جملوں کا بھی احساس کرتے خیال کرتے کہ سامنے والا کہاں سے بات کر رہا ہے۔

اللہ کے محبوب فرمانے لگے تمہیں اگر کبھی قسم کھانی ہو نا تمہارا مزاج ہے قسم کھانی پڑے اور تم مجھ سے ناراض ہو تو پھر تم کہتی ہو مجھے ابراہیم کے رب کی قسماور جب تم راضی ہو اور قسم کھانی پڑے تو کہتی ہو مجھے محمد مصطفی کے رب کی قسم تو جناب عائشہ کہتی ہیں۔

میں زبان سے ہنس رہی تھی اور انکھیں میری انسو برسا رہی میں نے کہا محبوبہ اتنا اتنا خیال کرتے یہاں تک اپ کو احساس یہاں تک پتہ ہوتا ہے۔

یہاں تک میرے رسول کریم علیہ السلام لوگوں کا احساس کرتے خیال کرتے شوق پیدا کرتے وارفت بھی ہوتے کئی دفعہ حضور فرض نماز پڑھ کے گھر چلے جاتے تھوڑی دیر کے بعد اتے مسجد میں نماز پڑھلی ۔

کئی دفعہ قاضی اعجاز مالکی رحمت اللہ علیہ اس کو لکھنے کے بعد اس کی شرح میں فرماتے ہیں اصل بات یہ تھی کہ حضور جب تک مسجد میں رہتے تھے صحابہ ادم بیٹھے رہتے تھےحضور فرماتے ہیں۔

میں جاؤں گا نہیں تو یہ بھی نہیں جائیں گے تو سرکار گھر تشریف لے جاتے تاکہ لوگ اپنے اپنے کام میں لگ جائیں اور پھر حضور واپس ا جا ایک ساتھ ایک تو اپنی ظاہری وضع کرتا میں سادگی لایا ہمارے بہت ساری مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ تکلف بڑا بڑھ گیا بڑا تکلف بڑھ گیا ہم کوشش کرتے ہیں۔

دوسروں کے برابر جانے کی ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے دنیا سے مقابلہ کرنے کا ہم نے تو اللہ رسول کی رضا کے اندر اندر رہنا ہے۔

اور دنیا میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جس کے پاس مال تو ہے پر لالچ کوئی نہیںاپنے اپ کو پیچھے نہ ائے دوسری بات یہ کہ اپنی گفتگو بڑی صاف ستھری کریں سادی کریں اس کے اندر کوئی تکلف نہ برپا کرے بات سامنے والے کی عقل کے مطابق ائے اور تیسری بات یہ کہ اپنی عادات میں اٹھنے بیٹھنے میں چلنے پھرنے میں اپنا تھوڑا سا خیال کریں۔

اور ایک بات اور اپ کو عرض کروں یہ اپ کو زیادہ دیر محنت نہیں کرنیپڑے گی اگر تھوڑا سا وقت ایا اپنے اپ کو دے دینا اقبال کہتے ہیں۔

اپنے من میں ڈوب کر باجا سراغ زندگی چل تو اگر میرا نہیں بنتا نہ مانا اپنا تو بنااپنا کو بن تھوڑا ہی اپنے اوپر بھی تو محنت کر لے کہ ساری زندگی دوسروں کی اصلاح کرتے رہنا دوست کوشش کریں اپنی عادات پہ کوئی دو چار پانچ ہفتے کے لیے محنت کرے تاکہ عادت سمجھ تاکہ طبیعتیں بدل ایک حدیث پڑھتا ہوں۔

اپنی بات کو سمیٹتا ہوں میرے رسول کریمصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ اخلاق کے چہرہ دیتا ناکہ جو عادات ہوتی ہیں اور عادات سے مراد صرف میٹھا بولنا نہیں بلکہ لالچ نہ کرنا بھی کھل کےتھوڑے پہ راضی رہنا بھی خلق ہے سچ بولنا بھی خل کے غیبت سے بچنا بھی اصل اخلاق یہ ہے بیٹا تو کئی دفعہ لوگ اپنے مطلب کے لیے بھی بول رہے تھے کی حاضری کو مستجاب فرمائے اخر دعوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *